ہم میکشوں کے قدموں پر اکثر
جھک جھک گئے ہیں محراب و منبر
شرمائے گا اب تا حشر طوفاں
ٹوٹی ہوئی اک کشتی ڈبو کر
اب شمع حسرت لو دے اٹھی ہے
اے صرصر غم دامن بچا کر
آشفتگی کو نیند آ چلی ہے
برہم نہ ہو وہ زلف معنبر
کیا اب بھی کوئی فردا ہے باقی
کس سوچ میں ہو اے اہل محشر
کیا طنز دوراں کیا حور خوباں
دل ہی ستم کش دل ہی ستم گر
چپ ہیں روشؔ اب ارباب دانش
تھے طنز کیا کیا اہل جنوں پر
غزل
ہم میکشوں کے قدموں پر اکثر
روش صدیقی