EN हिंदी
ہم کیوں یہ کہیں کوئی ہمارا نہیں ہوتا | شیح شیری
hum kyun ye kahen koi hamara nahin hota

غزل

ہم کیوں یہ کہیں کوئی ہمارا نہیں ہوتا

مظفر وارثی

;

ہم کیوں یہ کہیں کوئی ہمارا نہیں ہوتا
موجوں کے لئے کوئی کنارا نہیں ہوتا

دل ٹوٹ بھی جائے تو محبت نہیں مٹتی
اس راہ میں لٹ کر بھی خسارا نہیں ہوتا

سرمایۂ شب ہوتے ہیں یوں تو سبھی تارے
ہر تارہ مگر صبح کا تارا نہیں ہوتا

اشکوں سے کہیں مٹتا ہے احساس تلون
پانی میں جو گھل جائے وہ پارا نہیں ہوتا

سونے کی ترازو میں مرا درد نہ تولو
امداد سے غیرت کا گزارا نہیں ہوتا

تم بھی تو مظفرؔ کی کسی بات پہ بولو
شاعر کا ہی لفظوں پہ اجارا نہیں ہوتا