ہم کچھ ایسے ترے دیدار میں کھو جاتے ہیں
جیسے بچے بھرے بازار میں کھو جاتے ہیں
مستقل جوجھنا یادوں سے بہت مشکل ہے
رفتہ رفتہ سبھی گھر بار میں کھو جاتے ہیں
اتنا سانسوں کی رفاقت پہ بھروسہ نہ کرو
سب کے سب مٹی کے انبار میں کھو جاتے ہیں
میری خودداری نے احسان کیا ہے مجھ پر
ورنہ جو جاتے ہیں دربار میں کھو جاتے ہیں
ڈھونڈھنے روز نکلتے ہیں مسائل ہم کو
روز ہم سرخیٔ اخبار میں کھو جاتے ہیں
کیا قیامت ہے کہ صحراؤں کے رہنے والے
اپنے گھر کے در و دیوار میں کھو جاتے ہیں
کون پھر ایسے میں تنقید کرے گا تجھ پر
سب ترے جبہ و دستار میں کھو جاتے ہیں
غزل
ہم کچھ ایسے ترے دیدار میں کھو جاتے ہیں
منور رانا