ہم کو معلوم ہے باتوں کی صداقت تیری
لوگ کیا کیا نہیں کرتے ہیں شکایت تیری
ملکۂ حسن نہیں پھر بھی تو اے جان وفا
اچھی لگتی ہے بہت ہی مجھے صورت تیری
کوئی مشکل بھی ہو خاطر میں نہ لاتے تھے کبھی
حوصلہ کتنا بڑھاتی تھی رفاقت تیری
تو ہی بتلا کہ بھلا تجھ کو بھلائیں کیوں کر
سامنے آنکھوں کے آ جاتی ہے صورت تیری
کیا کہیں ہم کہ گزر جاتی ہے دل پر کیا کیا
یاد آتی ہے جو رہ رہ کے عنایت تیری
لوگ کیا سادہ ہیں امید وفا رکھتے ہیں
جیسے معلوم نہیں ان کو حقیقت تیری
اب کہاں رہتا ہے کیا کرتا ہے نادرؔ میرے
مدتوں بعد نظر آتی ہے صورت تیری
غزل
ہم کو معلوم ہے باتوں کی صداقت تیری
اطہر نادر