ہم کو لطف آتا ہے اب فریب کھانے میں
آزمائیں لوگوں کو خوب آزمانے میں
دو گھڑی کے ساتھی کو ہم سفر سمجھتے ہیں
کس قدر پرانے ہیں ہم نئے زمانے میں
تیرے پاس آنے میں آدھی عمر گزری ہے
آدھی عمر گزرے گی تجھ سے اوب جانے میں
احتیاط رکھنے کی کوئی حد بھی ہوتی ہے
بھید ہمیں نے کھولے ہیں بھید کو چھپانے میں
زندگی تماشا ہے اور اس تماشے میں
کھیل ہم بگاڑیں گے کھیل کو بنانے میں
غزل
ہم کو لطف آتا ہے اب فریب کھانے میں
عالم خورشید