ہم کہ چہرے پہ نہ لائے کبھی ویرانی کو
کیا یہ کافی نہیں ظالم تری حیرانی کو
کار فرہاد سے یہ کم تو نہیں جو ہم نے
آنکھ سے دل کی طرف موڑ دیا پانی کو
شیشۂ شوق پہ تو سنگ ملامت نہ گرا
عکس گل رنگ ہی کافی ہے گراں بانی کو
دامن چشم میں تارا ہے نہ جگنو کوئی
دیکھ اے دوست مری بے سر و سامانی کو
تو رکے یا نہ رکے فیصلہ تجھ پر چھوڑا
دل نے در کھول دیے ہیں تری آسانی کو
ہاں مجھے ضبط ہے سودا ہے جنوں ہے شاید
دے لو جو نام بھی چاہو مری نادانی کو
جس میں مفہوم ہو کوئی نہ کوئی رنگ غزل
سعدؔ جی آگ لگے ایسی زباں دانی کو

غزل
ہم کہ چہرے پہ نہ لائے کبھی ویرانی کو
سعد اللہ شاہ