EN हिंदी
ہم کریں بات دلیلوں سے تو رد ہوتی ہے | شیح شیری
hum karen baat dalilon se to radd hoti hai

غزل

ہم کریں بات دلیلوں سے تو رد ہوتی ہے

مظفر وارثی

;

ہم کریں بات دلیلوں سے تو رد ہوتی ہے
اس کے ہونٹوں کی خموشی بھی سند ہوتی ہے

سانس لیتے ہوئے انساں بھی ہیں لاشوں کی طرح
اب دھڑکتے ہوئے دل کی بھی لحد ہوتی ہے

جس کی گردن میں ہے پھندا وہی انسان بڑا
سولیوں سے یہاں پیمائش قد ہوتی ہے

شعبدہ گر بھی پہنتے ہیں خطیبوں کا لباس
بولتا جہل ہے بد نام خرد ہوتی ہے

کچھ نہ کہنے سے بھی چھن جاتا ہے اعجاز سخن
ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے