ہم کب اس راہ سے گزرتے ہیں
اپنی آوارگی سے ڈرتے ہیں
کشتیاں ڈوب بھی تو سکتی ہیں
ڈوب کر بھی تو پار اترتے ہیں
توڑ کر رشتۂ خلوص احباب
آنسوؤں کی طرح بکھرتے ہیں
اپنے احساس کی کسوٹی پر
ہم بھی پورے کہاں اترتے ہیں
چاہے کیسا ہی دور آ جائے
اپنے حالات کب سنورتے ہیں
سطح پر ہیں حباب کے خیمے
ڈوبنے والے کب ابھرتے ہیں
ایک حالت پہ ہم نہیں رہتے
جمع ہوتے ہیں پھر بکھرتے ہیں
زندگی تیرے نام کر دی تھی
اب ترا نام لے کے مرتے ہیں
رنج و راحت کی کشمکش میں شکیلؔ
عمر کے قافلے گزرتے ہیں
غزل
ہم کب اس راہ سے گزرتے ہیں
شکیل گوالیاری