EN हिंदी
ہم جرم محبت کی سزا پائے ہوئے ہیں | شیح شیری
hum jurm-e-mohabbat ki saza pae hue hain

غزل

ہم جرم محبت کی سزا پائے ہوئے ہیں

شاکر خلیق

;

ہم جرم محبت کی سزا پائے ہوئے ہیں
بے وجہ نہیں ہے کہ جو شرمائے ہوئے ہیں

تھی جن کی تب و تاب سے اس بزم کی رونق
دیپک وہ سر شام ہی کجلائے ہوئے ہیں

ہر سمت سیاہی ہے گھٹا ٹوپ اندھیرا
کیا زلف دوتا آج وہ بکھرائے ہوئے ہیں

ہم خوگر تسلیم و رضا آج ہیں ورنہ
ماضی میں بہت ٹھوکریں بھی کھائے ہوئے ہیں

ہے بربط دل سختئ مضراب سے لرزاں
تلخئ محبت کا مزہ پائے ہوئے ہیں

اے دوست سکوں ہم کو میسر نہیں ہوتا
آشفتگئ دہر سے گھبرائے ہوئے ہیں