EN हिंदी
ہم جو مست شراب ہوتے ہیں | شیح شیری
hum jo mast-e-sharab hote hain

غزل

ہم جو مست شراب ہوتے ہیں

امیر مینائی

;

ہم جو مست شراب ہوتے ہیں
ذرے سے آفتاب ہوتے ہیں

ہے خرابات صحبت واعظ
لوگ ناحق خراب ہوتے ہیں

کیا کہیں کیسے روز و شب ہم سے
عمل ناثواب ہوتے ہیں

بادشہ ہیں گدا، گدا سلطان
کچھ نئے انقلاب ہوتے ہیں

ہم جو کرتے ہیں مے کدے میں دعا
اہل مسجد کو خواب ہوتے ہیں

وہی رہ جاتے ہیں زبانوں پر
شعر جو انتخاب ہوتے ہیں

کہتے ہیں مست رند سودائی
خوب ہم کو خطاب ہوتے ہیں

آنسوؤں سے امیرؔ ہیں رسوا
ایسے لڑکے عذاب ہوتے ہیں