ہم جو محفل میں تری سینہ فگار آتے ہیں
رنگ بر دوش گلستاں بہ کنار آتے ہیں
چاک دل چاک جگر چاک گریباں والے
مثل گل آتے ہیں مانند بہار آتے ہیں
کوئی معشوق سزا وار غزل ہے شاید
ہم غزل لے کے سوئے شہر نگار آتے ہیں
کیا وہاں کوئی دل و جاں کا طلب گار نہیں
جا کے ہم کوچۂ قاتل میں پکار آتے ہیں
قافلے شوق کے رکتے نہیں دیواروں سے
سینکڑوں مجس و زنداں کے دیار آتے ہیں
منزلیں دوڑ کے رہرو کے قدم لیتی ہیں
بوسۂ پا کے لیے راہ گزار آتے ہیں
خود کبھی موج و تلاطم سے نہ نکلے باہر
پار جو سارے زمانے کو اتار آتے ہیں
کم ہو کیوں ابروئے قاتل کی کمانوں کا کھنچاؤ
جب سر تیر ستم آپ شکار آتے ہیں
غزل
ہم جو محفل میں تری سینہ فگار آتے ہیں
علی سردار جعفری