EN हिंदी
ہم جو انساں کے غم اٹھاتے ہیں | شیح شیری
hum jo insan ke gham uThate hain

غزل

ہم جو انساں کے غم اٹھاتے ہیں

متین نیازی

;

ہم جو انساں کے غم اٹھاتے ہیں
خوب کو خوب تر بناتے ہیں

زندگی خواب ہی سہی لیکن
خواب تعبیر چھوڑ جاتے ہیں

بے حقیقت مسرتوں کے لئے
زندگی بھر فریب کھاتے ہیں

مانگتے ہیں دعائیں جینے کی
اور جینا ہی بھول جاتے ہیں

سوچی سمجھی وہی تمنائیں
روز خاکے نئے بناتے ہیں

آپ سے یاد آپ کی اچھی
آپ تو ہم کو بھول جاتے ہیں

کاروان حیات میں خود کو
ہر قدم اجنبی سا پاتے ہیں

جب بھی بنتا ہے کوئی شیش محل
کتنے آئینے ٹوٹ جاتے ہیں

ذہن و دل کی رقابتیں توبہ!
کیسے کیسے خیال آتے ہیں

دوستی کیا ہے خود ستائی ہے
سب متینؔ اپنے کام آتے ہیں