EN हिंदी
ہم جیسے تیغ ظلم سے ڈر بھی گئے تو کیا | شیح شیری
hum jaise tegh-e-zulm se Dar bhi gae to kya

غزل

ہم جیسے تیغ ظلم سے ڈر بھی گئے تو کیا

باصر سلطان کاظمی

;

ہم جیسے تیغ ظلم سے ڈر بھی گئے تو کیا
کچھ وہ بھی ہیں جو کہتے ہیں سر بھی گئے تو کیا

اٹھتی رہیں گی درد کی ٹیسیں تمام عمر
ہیں زخم تیرے ہاتھ کے بھر بھی گئے تو کیا

ہیں کون سے بہار کے دن اپنے منتظر
یہ دن کسی طرح سے گزر بھی گئے تو کیا

اک مکر ہی تھا آپ کا ایفائے عہد بھی
اپنے کہے سے آج مکر بھی گئے تو کیا

ہم تو اسی طرح سے پھریں گے خراب حال
یہ شعر تیرے دل میں اتر بھی گئے تو کیا

باصرؔ تمہیں یہاں کا ابھی تجربہ نہیں
بیمار ہو؟ پڑے رہو، مر بھی گئے تو کیا