ہم جہاں رہتے ہیں خوابوں کا نگر ہے کوئی
اس خرابے میں نہ دیوار نہ در ہے کوئی
جا بسا تھا جو کسی ہجر کے صحرا میں کبھی
اے ہواؤ کہو اس دل کی خبر ہے کوئی
صورت موج صبا لوگ ادھر سے گزرے
یہ تو انجانی ہواؤں کی ڈگر ہے کوئی
ہجر دیدار بھی محرومیٔ دیدار بھی ہجر
جو کبھی ختم نہ ہو ایسا سفر ہے کوئی
میں کہ اندر سے پگھلتا ہی چلا جاتا ہوں
میرے یخ بستہ بدن میں بھی شرر ہے کوئی
یہ فضا راس نہیں دشت مزاجوں کے لئے
اس سمن زار میں پتھر ہے نہ سر ہے کوئی
جسم اور جاں کا یہ آزار یہ محشر اکبرؔ
کسی اندیشۂ باطن کا اثر ہے کوئی

غزل
ہم جہاں رہتے ہیں خوابوں کا نگر ہے کوئی
اکبر حیدری