ہم جہاں نغمہ و آہنگ لیے پھرتے ہیں
لوگ ہاتھوں میں وہاں سنگ لیے پھرتے ہیں
ہم ہی اس عہد کا معیار تغیر ہوں گے
ہم کہ ہر دور میں سو رنگ لیے پھرتے ہیں
کیا ہو شوریدہ سروں کی گزر اوقات کہ لوگ
دست بے فیض و دل تنگ لیے پھرتے ہیں
سب ترا حسن ترے حسن سہی قد میں نہیں
ہم بھی آنکھوں میں عجب رنگ لیے پھرتے ہیں
شوقؔ دشوار ہے اب معجزۂ فن کی نمود
لوگ اشعار میں فرہنگ لیے پھرتے ہیں
غزل
ہم جہاں نغمہ و آہنگ لیے پھرتے ہیں
رضی اختر شوق