ہم ہی نے سیکھ لیا رہ گزر کو گھر کرنا
وگرنہ اس کی تو عادت ہے در بہ در کرنا
نہ اپنی راہ تھی کوئی نہ کوئی منزل تھی
تبھی تو چاہا تھا تجھ کو ہی ہم سفر کرنا
تھیں گرچہ گرد مرے خامشی کی دیواریں
تمہارے واسطے مشکل نہیں تھا در کرنا
تمہاری ترک و طلب جسم و روح کی الجھن
ہمیں بھی آ نہ سکا خود کو معتبر کرنا
تری نگاہ تغافل شعار کے صدقے
ہمیں بھی آ ہی گیا ہے گزر بسر کرنا
جو اب کے درد اٹھا دل میں آخری ہوگا
جو ہو سکے تو اسے میرا چارہ گر کرنا
میں چور چور ہوں دیکھو بکھر نہ جاؤں کہیں
مری دعاؤں کو اتنا نہ بے اثر کرنا
بہار آئی ہے اس بار کچھ لکھیں ہم بھی
سکھاؤ ہم کو بھی اس درد کو شجر کرنا

غزل
ہم ہی نے سیکھ لیا رہ گزر کو گھر کرنا
جعفر عباس