EN हिंदी
ہم ہی کرتے نہیں زلفوں کو تری ہار پسند | شیح شیری
hum hi karte nahin zulfon ko teri haar pasand

غزل

ہم ہی کرتے نہیں زلفوں کو تری ہار پسند

جوشش عظیم آبادی

;

ہم ہی کرتے نہیں زلفوں کو تری ہار پسند
شیخ صاحب کو بھی آتا ہے یہ زنار پسند

سبزۂ خط رہے اس چہرۂ گل رنگ سے دور
زخم دل کو نہیں یہ مرہم زنگار پسند

جاؤں کعبے کو میں کس طرح سے اے واعظ شہر
آ گیا مجھ کو تو اب خانۂ خمار پسند

گو کہ سو رنگ گلستان میں دکھلائے بہار
نہ کریں گل کو ترے طالب دیدار پسند

جو کوئی درد سے ٹک چاشنی رکھتا ہوگا
اسی کو آئیں گے ؔجوشش مرے اشعار پسند