ہم ہتھیلی پہ جان رکھتے ہیں
اور تیری امان رکھتے ہیں
چند اشکوں کے واسطے صاحب
تیری باتوں کا مان رکھتے ہیں
تم گزرتے ہو اجنبی بن کر
ہم تو دل پر چٹان رکھتے ہیں
جو بھی ہیں ہم بس اک ہمیں ہیں ہم
دوست کیا کیا گمان رکھتے ہیں
میٹھی باتوں سے کیا انہیں مطلب
ہر گھڑی سینا تان رکھتے ہیں
کتنے شاطر ہیں وہ مرے ہم دم
دل میں تیر و کمان رکھتے ہیں
خامشی مصلحت رہی مہتابؔ
ورنہ ہم بھی زبان رکھتے ہیں
غزل
ہم ہتھیلی پہ جان رکھتے ہیں
بشیر مہتاب