ہم ہیں سر تا بہ پا تمنا
کیسی امید کیا تمنا
ہو کتنی ہی خوش گوار پھر بھی
ہے دل کے لیے بلا تمنا
دیتے ہو پیام آرزو تم
جب ترک میں کر چکا تمنا
دنیا کو فریب دے رہی ہے
جلوہ ہے سراب کا تمنا
اپنی منزل پہ ہم نہ پہنچے
جب تک رہی رہنما تمنا
مابین نگاہ و جلوۂ حسن
ہے ایک حجاب سا تمنا
الجھا رہا آرزو میں غافل
کیوں خود ہی نہ بن گیا تمنا
آواز تو دو کسے پکاروں
تم ہو مرے دل میں یا تمنا
سیمابؔ مآل شوق معلوم
ام للانسان ما تمنیٰ
غزل
ہم ہیں سر تا بہ پا تمنا (ردیف .. ٰ)
سیماب اکبرآبادی