EN हिंदी
ہم ہیں اور ضبط فغاں ہے آج کل | شیح شیری
hum hain aur zabt-e-fughan hai aaj-kal

غزل

ہم ہیں اور ضبط فغاں ہے آج کل

ارجمند بانو افشاں

;

ہم ہیں اور ضبط فغاں ہے آج کل
صبر کا پھر امتحاں ہے آج کل

ہم سے روٹھا ہے تو پھر کس سے ہے خوش
کس پہ آخر مہرباں ہے آج کل

دل بھی پژمردہ ہے آنکھیں مضمحل
یاد بس تیری جواں ہے آج کل

ایک وعدہ پر مٹا دی زندگی
ہم سا دیوانہ کہاں ہے آج کل

گھر گئے ہم وقت کے طوفان میں
اے غم جاناں کہاں ہے آج کل

ملتفت گلچیں ہیں نہ صیاد خوش
برق بھی نا مہرباں ہے آج کل

ایک تو مشکل وفا کے مرحلے
اور پھر دشمن جہاں ہے آج کل

دل شکستہ ایک افشاںؔ ہی نہیں
کون ہے جو نغمہ خواں ہے آج کل