ہم ہیں اور راہ کوئے بدنامی
مرحبا اے ہوائے خوش کامی
اس کا دل اپنے حق میں پارۂ سنگ
ختم ہے جس پہ نازک اندامی
ہم نے شکوہ کبھی کیا نہ کریں
شکوہ ہے اعتراف ناکامی
کلمۂ حق کہیں تو ہم جانیں
ورنہ کیا رستمی و بہرامی
پہلے مختون عقل کو کر لیں
زندگی پھر بنائیں اسلامی
سر منڈاتے ہیں ہم سے آ کے خیال
اپنا پیشہ ہوا ہے حجامی
غزل
ہم ہیں اور راہ کوئے بدنامی
سلیم احمد