ہم فقیروں کا سنے گر ذکر ارہ فاختہ
اپنی کو کو پر کرے ہرگز نہ غرہ فاختہ
جل کے خاکستر ابھی ہو جائے تو اک آن میں
گر ترے دل میں ہو سوز عشق ذرہ فاختہ
چشم تر سے اپنی تو سیراب رکھ شمشاد کو
یاں درخت خشک پر چلتا ہے ارہ فاختہ
جامۂ خاکستری سے تیرے یہ ثابت ہوا
اپنی درویشی کا ہے تجھ بھی غرہ فاختہ
جس پر اس ماہ تمامی پوش کا سایہ پڑے
باغ میں وہ سرو ہو رشک محرہ فاختہ
عشق مژگاں نے بھی تو کھینچا ہے دار سرو پر
یاد ابرو میں اگر ہے زیر ارہ فاختہ
مرغ بستانی کا اس کے سامنے دم بند ہے
نغمہ سنجی میں نہ کر غافلؔ سے غرہ فاختہ
غزل
ہم فقیروں کا سنے گر ذکر ارہ فاختہ
منور خان غافل