ہم دنیا سے جب تنگ آیا کرتے ہیں
اپنے ساتھ اک شام منایا کرتے ہیں
سورج کے اس جانب بسنے والے لوگ
اکثر ہم کو پاس بلایا کرتے ہیں
یوں ہی خود سے روٹھا کرتے ہیں پہلے
دیر تلک پھر خود کو منایا کرتے ہیں
چپ رہتے ہیں اس کے سامنے جا کر ہم
یوں اس کو چکھ یاد دلایا کرتے ہیں
نیندوں کے ویران جزیرے پر ہر شب
خوابوں کا اک شہر بسایا کرتے ہیں
ان خوابوں کی قیمت ہم سے پوچھ کہ ہم
ان کے سہارے عمر بتایا کرتے ہیں
اب تو کوئی بھی دور نہیں تو پھر تیمورؔ
ہم خط کس کے نام لکھایا کرتے ہیں
غزل
ہم دنیا سے جب تنگ آیا کرتے ہیں
تیمور حسن