ہم ڈھونڈتے پھرتے رہے تصویر ہوا کی
پانی پہ تھرکتی رہی تحریر ہوا کی
سنتے ہیں سمجھتے نہیں مطلب نہ معانی
ہوتی ہے درختوں سے جو تقریر ہوا کی
احساس نہیں ہے جنہیں بے بال و پری کا
کرتے ہیں ہوا میں وہی تعمیر ہوا کی
دیکھا ہی نہیں اس کو کسی آنکھ نے اب تک
کھینچی ہے مصور نے جو تصویر ہوا کی
میں بر سر پیکار ہوں خود اپنی گھٹن سے
کوئی تو کرے دشت میں تدبیر ہوا کی

غزل
ہم ڈھونڈتے پھرتے رہے تصویر ہوا کی
ہمدم کاشمیری