ہم ڈھونڈتے ہیں باغ میں اس گلعذار کو
جلوہ نے جس کے رنگ دیا ہے بہار کو
تم جاتے ہو تو جاؤ خدا کے لئے مگر
لے جاؤ اپنے ساتھ نہ صبر و قرار کو
ہم حسن اعتقاد سے سمجھے چڑھائے پھول
گل کر دیا جو اس نے چراغ مزار کو
دی کس نے اس کو جا کے نوید قدوم یار
ہے ناگوار باغ سے جانا بہار کو
اس بت میں نور قدرت خالق ہے مستتر
پتھر نے کیا چھپایا ہے دل میں شرار کو
مشتاقؔ غم کو پاس نہ آنے دے زینہار
خوش خوش گزار زندگئ مستعار کو
غزل
ہم ڈھونڈتے ہیں باغ میں اس گلعذار کو
منشی بہاری لال مشتاق دہلوی