ہم دیکھیں کس دن حسن اے دل اس رشک پری کا دیکھیں گے
وہ قد وہ کمر وہ چشم وہ لب وہ زلف وہ مکھڑا دیکھیں گے
مت دیکھ بتوں کی ابرو کو ہٹ یاں سے تو اے دل ورنہ تجھے
ایک آن میں بسمل کر دیں گے اور آپ تماشا دیکھیں گے
دل دے کر ہم نے آج اسے ہی دیکھی صورت تیوری کی
یہ شکل رہی تو اے ہمدم کل دیکھیں کیا کیا دیکھیں گے
جب دیکھی اس کی چین جبیں یوں ہم نے نظیرؔ اس بت سے کہا
خیر آپ تو ہم سے ناخوش ہیں اب اور کو ہم جا دیکھیں گے
کیا لطف رہا اس چاہت میں جو ہم چاہیں اور تم ہو خفا
یہ بات سنی تو وہ چنچل یوں ہنس کر بولا دیکھیں گے
غزل
ہم دیکھیں کس دن حسن اے دل اس رشک پری کا دیکھیں گے
نظیر اکبرآبادی