ہم دشت سے ہر شام یہی سوچ کے گھر آئے
شاید کہ کسی شب ترے آنے کی خبر آئے
معلوم کسے شہر طلسمات کا رستہ
کچھ دور مرے ساتھ تو مہتاب سفر آئے
اس پھول سے چہرے کی طلب راحت جاں ہے
پھینکے کوئی پتھر بھی تو احساں مرے سر آئے
تا پھر نہ مجھے تیرہ نصیبی کا گلا ہو
یہ صبح کا سورج مری آنکھوں میں اتر آئے
اب آگے علم اور کوئی ہاتھوں سے لے لے
ہم شب کے مسافر تھے چلے تا بہ سحر آئے
غزل
ہم دشت سے ہر شام یہی سوچ کے گھر آئے
اصغر گورکھپوری