EN हिंदी
ہم دہر کے اس ویرانے میں جو کچھ بھی نظارا کرتے ہیں | شیح شیری
hum dahr ke is virane mein jo kuchh bhi nazara karte hain

غزل

ہم دہر کے اس ویرانے میں جو کچھ بھی نظارا کرتے ہیں

معین احسن جذبی

;

ہم دہر کے اس ویرانے میں جو کچھ بھی نظارا کرتے ہیں
اشکوں کی زباں میں کہتے ہیں آہوں میں اشارا کرتے ہیں

کیا تجھ کو پتا کیا تجھ کو خبر دن رات خیالوں میں اپنے
اے کاکل گیتی ہم تجھ کو جس طرح سنوارا کرتے ہیں

اے موج بلا ان کو بھی ذرا دو چار تھپیڑے ہلکے سے
کچھ لوگ ابھی تک ساحل سے طوفاں کا نظارا کرتے ہیں

کیا جانیے کب یہ پاپ کٹے کیا جانیے وہ دن کب آئے
جس دن کے لیے ہم اے جذبیؔ کیا کچھ نہ گوارا کرتے ہیں