ہم چٹانوں کی طرح ساحل پہ ڈھالے جائیں گے
پھر ہمیں سیلاب کے دھارے بہا لے جائیں گے
ایسی رت آئی اندھیرے بن گئے منبر کے بت
گنبد و محراب کیا جگنو بچا لے جائیں گے
پہلے سب تعمیر کروائیں گے کاغذ کے مکاں
پھر ہوا کے رخ پہ انگارے اچھالے جائیں گے
ہم وفاداروں میں ہیں اس کے مگر مشکوک ہیں
اک نہ اک دن اس کی محفل سے نکالے جائیں گے
جنگ میں لے جائیں گے سرحد پہ سب تیر و تفنگ
ہم تو اپنے ساتھ مٹی کی دعا لے جائیں گے
شہر کو تہذیب کے جھونکوں نے ننگا کر دیا
گاؤں کے سر کا دوپٹہ بھی اڑا لے جائیں گے
داستان عشق کو بیکلؔ نہ دے گیتوں کا روپ
دوست ہیں بے باک سب لہجے چرا لے جائیں گے
غزل
ہم چٹانوں کی طرح ساحل پہ ڈھالے جائیں گے
بیکل اتساہی