ہم برا کرتے یا بھلا کرتے
سوچ کر کوئی فیصلہ کرتے
تم تعلق کا پاس تو رکھتے
خوش نہ کرتے ہمیں خفا کرتے
دوستو کاش دکھ کے لمحوں میں
تم دوا کرتے ہم دعا کرتے
کر دی دشوار رہ گزار زیست
اور کیا کام رہنما کرتے
رکھتے رشتوں میں یوں توازن ہم
کچھ وفا کرتے کچھ جفا کرتے
سر اٹھاتے قبولیت کے بعد
سجدۂ شوق یوں ادا کرتے
بات تھی جب کہ بت کدے میں عبیدؔ
بیٹھ کر تم خدا خدا کرتے
غزل
ہم برا کرتے یا بھلا کرتے
عبید الرحمان