ہم بھی ناداں ہیں سمجھتے ہیں کہ چھٹ جائے گی
تیرگی نور کے پیکر میں سمٹ جائے گی
لوگ کہتے ہیں محبت سے تمنا جس کو
میری شہ رگ اسی تلوار سے کٹ جائے گی
تم جسے بانٹ رہے ہو وہ ستم دیدہ زمیں
زلزلہ آئے گا کچھ ایسا کہ پھٹ جائے گی
قید ہوں گنبد بے در میں مری اپنی صدا
مجھ تک آئے گی مگر آ کے پلٹ جائے گی
بانٹ جی بھر کے اسے دہر کے محروموں میں
پیار دولت تو نہیں ہے کہ جو گھٹ جائے گی
باد صرصر سے نہ گھبرا کہ یہ چل کر عارفؔ
کتنے چہروں سے نقابوں کو الٹ جائے گی
غزل
ہم بھی ناداں ہیں سمجھتے ہیں کہ چھٹ جائے گی
عارف عبدالمتین