ہم اپنی جاگتی آنکھوں میں خواب لے کے چلے
وہ کیا سوال تھے جن کے جواب لے کے چلے
پہن لی کرب کی پوشاک راہ ہستی میں
ہم اپنے واسطے خود ہی عذاب لے کے چلے
یہ اور بات کے جگنو اسیر کر نہ سکے
ہتھیلیوں پہ مگر آفتاب لے کے چلے
ورق ورق پہ سجائی ہے خون کی تحریر
کہ شعر شعر نیا انتخاب لے کے چلے
جدھر جدھر سے بھی گزرے بچھا دیا سیلاب
ہم اشک لے کے چلے یا چناب لے کے چلے
انہی کے ہاتھ منورؔ لہولہان ہوئے
جو لوگ میرے چمن سے گلاب لے کے چلے
غزل
ہم اپنی جاگتی آنکھوں میں خواب لے کے چلے
منور ہاشمی