ہم اپنے دکھ کو گانے لگ گئے ہیں
مگر اس میں زمانے لگ گئے ہیں
کسی کی تربیت کا ہے کرشمہ
یہ آنسو مسکرانے لگ گئے ہیں
کہانی رخ بدلنا چاہتی ہے
نئے کردار آنے لگ گئے ہیں
یہ حاصل ہے مری خاموشیوں کا
کہ پتھر آزمانے لگ گئے ہیں
یہ ممکن ہے کسی دن تم بھی آؤ
پرندے آنے جانے لگ گئے ہیں
جنہیں ہم منزلوں تک لے کے آئے
وہی رستہ بتانے لگ گئے ہیں
شرافت رنگ دکھلاتی ہے دانشؔ
کئی دشمن ٹھکانے لگ گئے ہیں
غزل
ہم اپنے دکھ کو گانے لگ گئے ہیں
مدن موہن دانش