ہم اپنے بخت سیہ کے اثر میں رہتے ہیں
وہ رات ہے کہ ستارے نظر میں رہتے ہیں
تماشہ گاہ طلوع و غروب سے ہٹ کر
ہم اک سواد شب بے سحر میں رہتے ہیں
نہ تھی خدا کی زمیں تنگ جن کے قدموں پر
فغاں کہ قید وہ دیوار و در میں رہتے ہیں
وہ آگہی کے سمندر کہاں ہیں جن کے لئے
تمام عمر یہ پیاسے سفر میں رہتے ہیں
ہوائے کوچۂ محبوب سے کہے تو کون
کہ ہم بھی آرزوئے نامہ بر میں رہتے ہیں
وہ شہر یار سخن نام جن کا صہباؔ ہے
فقیر بن کے تری رہ گزر میں رہتے ہیں
غزل
ہم اپنے بخت سیہ کے اثر میں رہتے ہیں
صہبا اختر