ہم اپنے آپ سے بیگانے تھوڑی ہوتے ہیں
سرور و کیف میں دیوانے تھوڑی ہوتے ہیں
تباہ سوچ سمجھ کر نہیں ہوا جاتا
جو دل لگاتے ہے فرزانے تھوڑی ہوتے ہیں
براہ راست اثر ڈالتے ہیں سچے بول
کسی دلیل سے منوانے تھوڑی ہوتے ہیں
جو لوگ آتے ہیں ملنے ترے حوالے سے
نئے تو ہوتے ہیں انجانے تھوڑی ہوتے ہیں
اسی زمیں کے غزالوں سے ہوتے ہیں آباد
دلوں کے دشت پری خانے تھوڑی ہوتے ہیں
ہمیشہ ہاتھ میں رہتے ہیں پھول ان کے لئے
کسی کو بھیج کے منگوانے تھوڑی ہوتے ہیں
خیال و خواب کی رہتی ہے گرم بازاری
دماغ و دل کبھی ویرانے تھوڑی ہوتے ہیں
نہ آئیں آپ تو محفل میں کون آتا ہے
جلے نہ شمع تو پروانے تھوڑی ہوتے ہیں
کسی غریب کو زخمی کرے کہ قتل کرے
نگاہ ناز پہ جرمانے تھوڑی ہوتے ہیں
شعورؔ تم نے خدا جانے کیا کیا ہوگا
ذرا سی بات کے افسانے تھوڑی ہوتے ہیں
غزل
ہم اپنے آپ سے بیگانے تھوڑی ہوتے ہیں
انور شعور