ہم اپنے آپ کو اک مسئلہ بنا نہ سکے
اسی لئے تو کسی کی نظر میں آ نہ سکے
ہم آنسوؤں کی طرح واسطے نبھا نہ سکے
رہے جن آنکھوں میں ان میں ہی گھر بنا نہ سکے
پھر آندھیوں نے سکھایا وہاں سفر کا ہنر
جہاں چراغ ہمیں راستہ دکھا نہ سکے
جو پیش پیش تھے بستی بچانے والوں میں
لگی جب آگ تو اپنا بھی گھر بچا نہ سکے
مرے خدا کسی ایسی جگہ اسے رکھنا
جہاں کوئی مرے بارے میں کچھ بتا نہ سکے
تمام عمر کی کوشش کا بس یہی حاصل
کسی کو اپنے مطابق کوئی بنا نہ سکے
تسلیوں پہ بہت دن جیا نہیں جاتا
کچھ ایسا ہو کے ترا اعتبار آ نہ سکے
غزل
ہم اپنے آپ کو اک مسئلہ بنا نہ سکے
وسیم بریلوی