ہم اکثر تیرگی میں اپنے پیچھے چھپ گئے ہیں
مگر جب راستوں میں چاند ابھرا چل پڑے ہیں
زمانہ اپنی عریانی پہ خوں روئے گا کب تک
ہمیں دیکھو کہ اپنے آپ کو اوڑھے ہوئے ہیں
مرا بستر کسی فٹ پاتھ پر جا کر لگا دو
مرے بچے ابھی سے مجھ سے ترکہ مانگتے ہیں
بلند آواز دے کر دیکھ لو کوئی تو ہوگا
جو گلیاں سو گئی ہیں تو پرندے جاگتے ہیں
کوئی تفصیل ہم سے پوچھنا ہو پوچھ لیجے
کہ ہم بھی آئینے کے سامنے برسوں رہے ہیں
ابھی اے داستاں گو داستاں کہتا چلا جا
ابھی ہم جاگتے ہیں جنبش لب دیکھتے ہیں
ہوا اپنے ہی جھونکوں کا تعاقب کر رہی ہے
کہ اڑتے پتے پھر آنکھوں سے اوجھل ہو رہے ہیں
ہمیں بھی اس کہانی کا کوئی کردار سمجھو
کہ جس میں لب پہ مہریں ہیں دریچے بولتے ہیں
ادھر سے پانیوں کا ریلا کب کا جا چکا ہے
مگر بچے درختوں سے ابھی چمٹے ہوئے ہیں
مجھے تو چلتے رہنا ہے کسی جانب بھی جاؤں
کہ اخترؔ میرے قدموں میں ابھی تک راستے ہیں
غزل
ہم اکثر تیرگی میں اپنے پیچھے چھپ گئے ہیں
اختر ہوشیارپوری