EN हिंदी
ہم ایسے کب تھے کہ خود بدولت یہاں بھی کرتے قدم نوازش | شیح شیری
hum aise kab the ki KHud badaulat yahan bhi karte qadam nawazish

غزل

ہم ایسے کب تھے کہ خود بدولت یہاں بھی کرتے قدم نوازش

نظیر اکبرآبادی

;

ہم ایسے کب تھے کہ خود بدولت یہاں بھی کرتے قدم نوازش
مگر یہ اک اک قدم پر اے جاں فقط عنایت کرم نوازش

کہاں یہ گھر اور کہاں یہ دولت جو آپ آتے ادھر کو اے جاں
جو آن نکلے ہو بندہ پرور تو کیجے اب کوئی دم نوازش

لگا کے ٹھوکر ہمارے سر پر بلا تمہاری کرے تأسف
کہ ہم تو سمجھے ہیں اس کو دل سے تمہارے سر کی قسم نوازش

جواب مانگا جو نامہ بر سے تو اس نے کھا کر قسم کہا یوں
زباں قلم ہو جو جھوٹ بولے کہ واں نہیں یک قلم نوازش

اٹھاویں نازاں کے ہم نہ کیوں کر نظیرؔ دل سے کہ جن کے ہوویں
جفا تلطف عتاب شفقت غضب توجہ ہتم نوازش