EN हिंदी
ہم اہل ظرف ہیں یوں ہی خفا نہیں ہوتے | شیح شیری
hum ahl-e-zarf hain yun hi KHafa nahin hote

غزل

ہم اہل ظرف ہیں یوں ہی خفا نہیں ہوتے

کویتا کرن

;

ہم اہل ظرف ہیں یوں ہی خفا نہیں ہوتے
وفا شعار کبھی بے وفا نہیں ہوتے

کچھ ایسے آنسو بھی رہتے ہیں میری پلکوں پر
جدا تو ہوتے ہیں پھر بھی جدا نہیں ہوتے

جو زخم تم نے نوازے ہیں بے سبب ہم کو
کسی بھی درد کا وہ مسئلہ نہیں ہوتے

کہا یہ کس نے کہاں سے یہ سن کے آئے ہو
جو بے سہارا ہیں وہ آسرا نہیں ہوتے

ہر ایک گام پہ جو لڑکھڑائے رہتے ہیں
غبار راہ میں وہ راستہ نہیں ہوتے

چراغ تو ہیں مگر اتنے دھندلے دھندلے کیوں
کرنؔ تمہارے تو یہ نقش پا نہیں ہوتے