ہم اہل نظارہ شام و سحر آنکھوں کو فدیہ کرتے ہیں
ہم جلوہ جلوہ کہتے ہیں وہ پردہ پردہ کرتے ہیں
اے ناصح تو کیا کہتا ہے وہ عاجز ہے مے نوشی سے
لے توڑ رہے ہیں ساغر کو ہم آج ہی توبہ کرتے ہیں
سرکار کا ہے بازار بھی کیا ہر جنس خریدی جاتی ہے
بیچ آئے سب ایمان دھرم ہم سر کا سودا کرتے ہیں
جب ہم نے زباں کھولی اپنی مصلوب ہوئے مقتول ہوئے
یہ دیکھیے ہم خاموش ہوئے سب میرا چرچا کرتے ہیں
یہ کنج قفس یہ آہ و بکا یہ رنج و الم ہیں میرے لئے
کیا بات ہوئی مل کر ہم سے کیوں کر وہ گریہ گرتے ہیں
وہ دل اپنا بہلاتے ہیں اس شام و سحر کے کھیل میں ہم
ہر صبح دباتے ہیں جذبے ہر شام وہ فتنہ کرتے ہیں
جب بات وفا کی آتی ہے جب منظر رنگ بدلتا ہے
اور بات بگڑنے لگتی ہے وہ پھر اک وعدہ کرتے ہیں
غزل
ہم اہل نظارہ شام و سحر آنکھوں کو فدیہ کرتے ہیں
عفیف سراج