ہم آج کھائیں گے اک تیر امتحاں کے لیے
کہ وقف کرنا ہے دل ناز جاں ستاں کے لیے
جلا کے دل کو لپک سے ڈرو نہ شعلے کی
زباں دراز ہے لیکن نہیں فغاں کے لیے
اسی چمن میں کہ وسعت ہے جس کی نامحدود
نہیں پناہ کی جا ایک آشیاں کے لیے
کیا تھا ضبط نے دعویٰ رازدارئ عشق
اٹھا ہے درد کلیجے میں امتحاں کے لیے
کسی کو ڈھونڈے نہ ملتا نظر کی چوٹ کا نیل
نہ ہوتا دل میں سویدا اگر نشاں کے لیے
سوائے دل کے جو سرمایۂ دو عالم ہے
نہ کچھ یہاں کے لیے ہے نہ کچھ وہاں کے لیے
نہ عشق جرم ہے کوئی نہ دل کی بات ہے راز
برا ہو شرم کا اک قفل ہے زباں کے لیے
خلاف اپنے رہی وضع ساز و برگ چمن
قفس بنے ہیں جو تنکے تھے آشیاں کے لیے
لرز رہے ہیں فلک آرزوؔ کہ آہ رسا
چلی ہے تیغ بکف فتح ہفت خواں کے لیے
غزل
ہم آج کھائیں گے اک تیر امتحاں کے لیے
آرزو لکھنوی