ہم آگہی کو روتے ہیں اور آگہی ہمیں
وارفتگئ شوق کہاں لے چلی ہمیں
لیتی گئی تھی ہم سے صبا ذوق دلبری
دیتی گئی تھی لذت بے رہروی ہمیں
ان کے غرور و غمزہ و ناز و ادا کی خیر
راس آ چلی تھی رسم و رہ عاشقی ہمیں
ہم ذرہ ذرہ ڈھونڈ چکے موجۂ سراب
اور قطرہ قطرہ ڈھونڈ چکی تشنگی ہمیں
آئی تھی چند گام اسی بے وفا کے ساتھ
پھر عمر بھر کو بھول گئی زندگی ہمیں
غزل
ہم آگہی کو روتے ہیں اور آگہی ہمیں
جاوید کمال رامپوری