حلقہ حلقہ گھر بنا لخت دل بیتاب کا
زلف جاناں میں ہے عالم سبحۂ سیماب کا
سونے میں نظارہ کر لوں روے عالمتاب کا
خوف کیا دزد نگہ کو ہے شب مہتاب کا
کھیل بھی بیتاب تھا طفلی میں اس بیتاب کا
پر اڑاتا تھا ہوا پر ماہیٔ بے آب کا
رک نہیں سکتا ہے دریا دیدۂ پر آب کا
پاٹ ہے رومال میرا دامن سیلاب کا
خواب میں یاران رفتہ سے ملاقاتیں ہوئیں
ہم نے سمجھا خضر غفلت کو رہ احباب کا
کہتے ہیں سب دیکھ کر بیتاب میرا عضو عضو
آدمی اب تک نہیں دیکھا کہیں سیماب کا
نیند کی صورت نہیں دیکھا بہ جز داغ جگر
پردہ میری آنکھ میں شاید کہ ہے کمخواب کا
لگ گئی آگ آتش رخ سے نقاب یار میں
دیکھ لو جلتا ہے کونا چادر مہتاب کا
مجلس بے شمع وہ ہیں شمع بے مجلس ہوں میں
غم مرا احباب کو ہے مجھ کو غم احباب کا
ہجر جاناں کے الم میں ہم فرشتے بن گئے
دھیان مدت سے چھٹا آب طعام و خواب کا
اہل تسلیم و رضا سے سر بلندوں کی ہے زیب
خوش نما زیر منار و قرب ہے محراب کا
جھک کے ہم نے بوسۂ ابرو کی جب مانگی دعا
حلقۂ آغوش پر عالم ہوا محراب کا
اس قدر فریاد محشر خیز اے بلبل نہ کر
دیکھنا تختہ نہ الٹے گلشن شاداب کا
مہر دست آویز غم ہے ہر بشر کا داغ غم
دل ہے محضر صحبت گم کردۂ احباب کا
بے تکلف آ گیا وہ مہ دم فکر سخن
رہ گیا پاس ادب سے قافیہ آداب کا
پرورش تقدیر کرتی ہے مجھے بہر قضا
ذبح کو پروردہ کرنا کام ہے قصاب کا
نشہ جرات زیادہ ہو گیا اے مے کشو
ساغر مے بن گیا کاسہ سر سہراب کا
موئے آتش دید ساں بل کھائے وہ موئے کمر
میں جو لکھوں گرم مضموں اس طلائی ڈاب کا
ہو گیا ہوں میں نقاب روئے روشن پر فقیر
چاہیے تہ بند مجھ کو چادر مہتاب کا
خال و خط سے عیب اس کے روئے اقدس کو نہیں
حسن ہے مصحف میں ہونا نقطۂ اعراب کا
دوست دشمن سے زیادہ تیز رکھتے ہیں چھری
برہمن بھی پیشہ اب کرنے لگے قصاب کا
ہونٹ پر انگشت رنگیں رکھ کے وہ کہنے لگے
شاخ مرجاں نے ثمر پیدا کیا عناب کا
لاغری کے ساتھ بیتابی یہی اے بحر حسن
خار ہے یہ جسم لاغر ماہیٔ بے آب کا
تیری فرقت میں جو آئے بھول کر آنکھوں میں نیند
مردمان چشم نے پھر منہ نہ دیکھا خواب کا
میرے مرغ دل کی بیتابی اڑائی کس طرح
حوصلہ ایسا نہیں ہے طائر سیماب کا
خدمت اقدس میں چل کر یہ غزل پڑھ اے منیرؔ
شہرہ سب اہل سخن میں ہے ترے نواب کا
غزل
حلقہ حلقہ گھر بنا لخت دل بیتاب کا
منیرؔ شکوہ آبادی