حلقۂ شام و سحر سے نہیں جانے والا
درد اس دیدۂ تر سے نہیں جانے والا
پا بہ زنجیر نکالے گا سفر کی تدبیر
طنطنہ فرق ہنر سے نہیں جانے والا
تشنہ لب کو تو میسر نہیں اک جرعۂ آب
بو الہوس لقمۂ تر سے نہیں جانے والا
منقطع کرتے ہیں باغ و شجر و شاخ اسے
ربط محنت کا ثمر سے نہیں جانے والا
پر کشش بھی ہے سرافرازیٔ دنیا بھی مگر
زہر گنجینۂ زر سے نہیں جانے والا
ترک دنیا ہو کہ دنیا کہ طلب ہو پیارے
یہ وہ سودا ہے جو سر سے نہیں جانے والا
اس پہ ایک اور غضب ابروئے خم دار بھی ہے
بچ کے اس تیغ نظر سے نہیں جانے والا
ساری خوشبو سمٹ آئی الف قامت کی
گل تر کاف کمر سے نہیں جانے والا
پیرو شیر خدا ہوں اسد اللہی ہوں
یا علیؔ میں ترے در سے نہیں جانے والا

غزل
حلقۂ شام و سحر سے نہیں جانے والا
سید امین اشرف