ہلاک کشمکش رائیگاں بہت سے ہیں
کہ زندگی ہے تو کار زیاں بہت سے ہیں
میں اس ہوا میں بہت دیر روشنی دوں گا
ابھی دیے سر محراب جاں بہت سے ہیں
اسے بھی اپنے سنورنے کا کب خیال آیا
جب اہل عشق کو کار جہاں بہت سے ہیں
اس ایک بات پہ حیراں ہے وقت کا منصف
کہ اس میں کون سا سچ ہے بیاں بہت سے ہیں
عجب یہ خطۂ زندہ دلاں ہوا آباد
کہ گھر کہیں بھی نہیں اور مکاں بہت سے ہیں
غزل
ہلاک کشمکش رائیگاں بہت سے ہیں
رضی اختر شوق