حیرتوں کے سلسلے سوز نہاں تک آ گئے
ہم نظر تک چاہتے تھے تم تو جاں تک آ گئے
نا مرادی اپنی قسمت گمرہی اپنا نصیب
کارواں کی خیر ہو ہم کارواں تک آ گئے
ان کی پلکوں پر ستارے اپنے ہونٹوں پہ ہنسی
قصۂ غم کہتے کہتے ہم کہاں تک آ گئے
زلف میں خوشبو نہ تھی یا رنگ عارض میں نہ تھا
آپ کس کی آرزو میں گلستاں تک آ گئے
رفتہ رفتہ رنگ لایا جذبۂ خاموش عشق
وہ تغافل کرتے کرتے امتحاں تک آ گئے
خود تمہیں چاک گریباں کا شعور آ جائے گا
تم وہاں تک آ تو جاؤ ہم جہاں تک آ گئے
آج قابلؔ مے کدے میں انقلاب آنے کو ہے
اہل دل اندیشۂ سود و زیاں تک آ گئے
غزل
حیرتوں کے سلسلے سوز نہاں تک آ گئے
قابل اجمیری