EN हिंदी
حیرت و خوف کے محور سے نکل پڑتے ہیں | شیح شیری
hairat-o-KHauf ke mehwar se nikal paDte hain

غزل

حیرت و خوف کے محور سے نکل پڑتے ہیں

نور العین قیصر قاسمی

;

حیرت و خوف کے محور سے نکل پڑتے ہیں
آؤ آسیب زدہ گھر سے نکل پڑتے ہیں

جسم کو اور سمیٹوں تو رگ جاں رک جائے
پاؤں پھیلاؤں تو چادر سے نکل پڑتے ہیں

وہ کیا کرتا ہے بندوں کی حفاظت یوں بھی
راستے بیچ سمندر سے نکل پڑتے ہیں

صبر مظلوم کا جب حد سے گزرتا ہے تو پھر
وار ٹوٹے ہوئے خنجر سے نکل پڑتے ہیں

جب میں کہتا ہوں غزل سامنے اس کے قیصر
مضمحل لفظ بھی بستر سے نکل پڑتے ہیں