حیرت ہے وہ خون کی باتیں کرتے ہیں
جو اکثر قانون کی باتیں کرتے ہیں
جن کی جیبیں اکثر خالی رہتی ہیں
جانے کیوں قارون کی باتیں کرتے ہیں
اپنی گلیوں کا بھی جن کو علم نہیں
دیکھو وہ رنگون کی باتیں کرتے ہیں
کب سے موسم سرد پڑا ہے ملنے کا
اور وہ ہیں کہ جون کی باتیں کرتے ہیں
دل کی دنیا بگ بازار میں رہتی ہے
وہ مجھ سے پرچون کی باتیں کرتے ہیں
غزل
حیرت ہے وہ خون کی باتیں کرتے ہیں
اشفاق رشید منصوری