حیرت ہے جنہیں میری ترقی پہ جلن بھی
ہیں ان میں نئے دوست بھی یاران کہن بھی
ہوتی تھی کبھی محفل احباب میں رونق
طاری ہے وہاں اب تو اداسی بھی گھٹن بھی
ساتھ اس کا نبھاتا ہوں تو یہ میرا ہنر ہے
وہ شخص بیک وقت ہے پانی بھی اگن بھی
ہنستے ہوئے چہرہ پہ بھی آتی ہے اداسی
ہے چاند کی تقدیر میں تھوڑا سا گہن بھی
اس راہ محبت کی ہے اتنی سی کہانی
اس راہ میں آئے ہیں بیاباں بھی چمن بھی
منزل کے لیے مجھ کو ملے ہیں جو شرارے
شامل ہے انہیں میں مرے پیروں کی تھکن بھی
بے نام سے کچھ درد یہاں ٹھہرے ہوئے ہیں
ہے ایک سرائے کی طرح اپنا بدن بھی
اب ترک تعلق کا اثر دونوں طرف ہے
شرمندہ جو تو ہے تو پشیماں ہے پونؔ بھی
غزل
حیرت ہے جنہیں میری ترقی پہ جلن بھی
پون کمار