حیرت انگیز ہوا چاہتی ہے
آہ زرخیز ہوا چاہتی ہے
اپنی تھوڑی سی دھنک دے بھی دے
رات رنگ ریز ہوا چاہتی ہے
آب جو دیکھ ترے ہوتے ہوئے
آگ آمیز ہوا چاہتی ہے
بس پیالہ ہی طلب گار نہیں
مے بھی لبریز ہوا چاہتی ہے
روشنی تجھ سے بھلا کیا پرہیز
تو ہی پرہیز ہوا چاہتی ہے
غزل
حیرت انگیز ہوا چاہتی ہے
نوین سی چترویدی